جمعرات، 2 دسمبر، 2021

کرسٹل ڈرگس اور بلوچستان کی نئی نسل

جلیلا حیدر
ہیومن رائٹس ورکر 


سن 2019 میں مجھ سے ایک لڑکی نے رابطہ کیا کہ میڈم آپ ہیومن رائٹس پر کام کرتی ہے میرے بہن کو انصاف دیں اسکے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ میں نے کہا آپ چیمبر آجائے تو اس نے 



کہا کہ نہیں کل عدالت ملتے ہے میں بہن کو بھی لاتی ہوں۔ 
خیر وہ عدالت آگئی، لڑکی خود کوئٹہ ایک ہوٹل میں کام کرتی تھی۔ میں پوچھا کہ کہاں ہے بہن، مجھے لگا کہ بہن شاید بڑی خاتون ہوگی، گھریلو ناچاقی یا تشدد کا مسلہ ہوگا۔سامنے آنے پر 13 سال کی لڑکی تھی۔ میں نے کہا یہ بہن ہے اسکو کیا ہوا ہے؟ تو اس لڑکی نے بتایا کہ اسکی بہن کرسٹل نامی ڈرگ استعمال کرتی ہے اور کوئی گروہ ہے جو ان سے جسم فروشی بھی کرتے ہے۔ مجھے ابھی پتہ چلا ہے۔ میں نے یکدم کہا استغاثہ کرتے ہے۔ خیر کچھ دیر میں ایکدم میری نظر بچی کے گردن پر بہت بڑے چاقو کے کٹ کا نشان پر پڑی تو پوچھا یہ کیا ہوا ہے، تو اس بچی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہاں کٹ لگی ہے۔ اس کے بہن نے بتایا کہ اس نے خود اپنا گردن کاٹنے کی کوشش کی یے جب یہ نشے میں تھی۔ میں تو حیران ہی رہ گئی۔ خیر استغاثہ جس مجسٹریٹ کے سامنے جمع کیا اس نے بتایا کہ میڈم اس کیس میں تو پہلے سے راضی نامہ ہوچکا ہے۔ میں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے تو اس نے بتایا کہ فیملی نے معاف کیا ہے۔ جب ہم کورٹ روم سے نکلے تو بہن جب بات کر رہی تھی اسکے آستین بھی تھوڑا آگے پیچھے ہوا، میں نے دیکھا کہ اسکا یعنی بڑی بہن کے اپنے ہاتھ پر بھی کٹس کے نشان تھے۔ جو بچی تھی اسکی تو اللہ معافی اتنے کٹس کے نشان تھے کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ خیر اس کیس میں پیشرفت نہیں ہوسکی۔ بعد میں ایک وکیل دوست نے بتایا کہ یہ پورا خاندان اس کام میں ملوث ہے اور پیسوں کے لین دین پر انکی لڑائی ہوئی تھی تو ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ کیا تھا۔ 
میں گھر آئی انٹرنٹ سے جدید منشیات پر آرٹیکلز پڑھنا شروع کیا جس میں ایک نشہ کرسٹل کا ہے، جو لوگوں کو ہیلوسینیشن میں مبتلا کرتا ہے۔ یعنی ایک ایسی کیفیت جو کہ ایک خیالی دنیا کا تاثر بناتا ہے، اور مصنوعی خوشی کے تاثرات دیتا ہے ۔ لوگ خود کو کچھ اور سمجھ بیٹھتے ہے، اس میں تشدد وغیرہ بھی ہو تو تکلیف محسوس نہیں کرتے، جب تک کہ وہ ہوش میں نہیں آتے۔

- پس نوشت کہنے کا مقصد یہ کہ بلوچستان کے چھوٹے صوبہ میں بہت سارے بچے اور بچیاں مختلف منشیات کے زد میں ہے، اور منشیات فروش نہ صرف ان کو ڈرگ فراہم کرتے ہے بلکہ ان سے جسم فروشی اور دوسرے غیر قانونی کام بھی کرواتے ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں بلوچستان خاص کر کوئٹہ یکسر نظر انداز ہوا ہے، جہاں پر سماجی فرق، غربت، دہشت گردی اور خوف ،نفسیاتی دباؤ نے لوگوں سے نہ صرف انکی انسانیت چھینی ہے بلکہ ایک تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہیں۔ جب ہم اس عالمی سرمایہ داری نظام کی بات کرتے ہے،اس سے ابھرنے والی استحصالی کاروبار جیسا کہ جسم فروشی ،ڈرگ اور ہتھیار کے منڈیوں کی بات کرتے ہے ، اس سے نجات کے لئے برابری کے بنیاد پر سماج کی بات کرتے ہے جہاں تمام طبقوں کو یکسر مواقع حاصل ہو، اسکی جہدوجہد کرتے ہے تو لوگ ہم سے بدظن ہوتے ہے کہ یہ لوگ ملک دشمن، امیر دشمن اور دین دشمن پالیسوں کے طرف راغب ہے۔ 
آج بھی سوال اپنی جگہ ہے کہ ایک شہر میں اتنے چیک پوسٹس اور سیکورٹی ہے پھر بھی منشیات کا کاروبار اس 
تیزی سے کیسے پھیل رہا ہے؟


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں