حضرت مولانا عبید اللہ سندھی ہمارے دور کے عظیم مفسر قرآن ہوئے ہیں آپ تعلیم یافتہ لوگوں کو چھ ماہ میں قرآن پاک سے کما حقہ ، واقف کرا دیتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ملکہ عطا کیا تھا۔ حضرت مولانا لاہوری ، مولانا سلطان محمود کٹھیالے والے حکیم فضل الرحمن وغیرہم نے آپ ہی سے قرآن پاک پڑھا تھا۔ آپ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کے شاگردوں میں سے تھے اور ان میں بڑا مقام رکھتے تھے۔ انگریز آپ سے بہت خوفزدہ تھا۔ ہندوستان میں آپ کا داخلہ بند کردیا تھا بلک ہسخت سزا رکھی تھی ، لہٰذا آپ نے 25 سال کا عرصہ جلا وطنی میں بسر کیا۔ آپ اپنے استاد محترم کا اشارہ پا کر کابل ہجرت کر گئے اور کابل کو انگریز کے پنجہ سے آزاد کرایا مگر انگریز نے وہاں بھی آپ کو جمنے نہیں دیا اور آپ کو روس جانا پڑا ۔ وہاں پر صرف ایک سال کا عرصہ گزارا۔ اس کے بعد آپ ترکی چلے گئے اور چار سال وہاں قیام کیا۔ آپ نے ترکوں کو خواب غفلت سے جگایا اور انہیں باور کرایا کہ تم بےدینی کی آغوش میں جا رہے ہو۔ قرآن پاک کی چند سورتوں کا مطلب سمجھ لو تو بےدینی سے بچ جائو گے۔ مگر ان لوگوں نے آپ کی دعوت کا خاطر خواہ جواب نہ دیا ، لہٰذا آپ ترکی سے حجاز مقدس چلے گئے۔ آپ بارہ سال تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے۔ انگریز آپ کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ وہاں بھی آپ کی جاسوسی کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ طواف کے دوران آپ نے دیکھا کہ جاسوس آپ کے پیچھے پیچھے آ رہا ہے آپ نے اسے پہچان لیا اور سخت ڈانٹ پلائی۔ فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی ، یہاں بھی میرا پیچھا کر رہے ہو۔
خدا کا خوف کرو ، کم از کم حرم پاک کا ہی احترام کرو۔ آپ زبردست انقلابی ذہن کے مالک تھے اسی لئے تو انگریز آپ سے ڈرتا تھا آپ نے قیام پاکستان سے تین سال قبل وفات پائی آپ نے زندگی کے آخری ایام میں فرمایا تھا کہ میں نے انگریز کی جڑوں کو ہندوستان سے اکھاڑ دیا ہے اگر یہ چند سال کے اندر اندر اس ملک سے نہ بھاگا تو میری قبر پر آ کر لات مارنا اور کہنا کہ عبید اللہ نے جھوٹ بولا۔ چناچہ آپ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور انگریز تین سال کے اندر اندر ہندوستان کو خیر باد کہہ گیا۔
کسی زمانہ میں برطانیہ ، برطانیہ عظمیٰ کہلاتا تھا۔ یہ اتنی بڑی سلطنت تھی کہ اس پر کبھی سورج نہیں ڈوبتا تھا۔ مقصد یہ کہ اس سلطنت کا رقبہ اتنا وسیع تھا کہ کسی نہ کسی حصے پر سورج موجود ہوتا تھا۔ اس کے مقابل ہمیں امریکہ ، روس ، جرمنی وغیرہ سب کمزور تھے ۔ مگر اس کے ظلم کی وجہ سے اللہ نے اتنی بڑی حکومت چھین لی اور اب یہ اپنے اصل ملک میں محصور ہو کر رہ گیا ہے۔ تو یہی وہ انگریز تھا جس نے مولانا عبید اللہ سندھی کو جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا تھا۔
مولا دینی طور پر محدث ہونے کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی تھے آپ خود فرماتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد ہم نے اٹھارہ سال تک شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی خدمت میں رہ کر سیاست بھی سیکھی ہے اور دین بھی حاصل کیا ہے۔ آپ امام شاہ ولی اللہ کی حکمت کے بڑے ماہر تھے۔ نہایت نیک سیرت انسان تھے نو مسلم ہو کر اتنا شعور حاصل کرنا ۔ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی تھی۔ جفاکشی کا یہ عالم تھا کہ آٹھ دس میل کا سفر پیدل طے کر کے نماز جمعہ کے لئے آتے تھے۔ جب کرایہ نہیں ہوتا تھا پیدل ہی چل دیتے۔ ایک دفعہ ملتان کے لئے سفر شروع کیا ۔ مظفر گڑھ کے ریلوے سٹیشن پہنچے تو پاس صر فاتنے ہی پیسے تھے۔ جس سے ملتان کے لئے ٹکٹ خرید لیا۔ اتنے میں ایک اور مسافر نے سوال کیا کہ سخت لاچار ہوں ، ملتان جانا ہے مگر ٹکٹ کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ آپ نے خریدا ہوا ٹکٹ اس سائل کو دیدیا اور خود پیدل ہی ملتان کے لئے چل دیئے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ آخر میں اشتراکی ہوگئے تھے ۔ حالانکہ یہ غلط ہے البتہ آپ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھے۔ آپ نے اپنی تفسیر میں اشتراکیت کے سخت خلاف لکھا ہے۔ کیونکہ اس دور میں اسلامی نظام سے ٹکر لینے والا اشتراکی نظام ہی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ اشتراکی نظام کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ایک وقت ضرورت آئے گا جب انہیں قرآنی پروگرام کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ اسلامی پروگرام سے بہتر کوئی پروگرام نہیں ملے گا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو بھی قوم قرآنی پروگرام سے اعراض کریگی وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتی نہ دینی اعتبار سے کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی دنیوی لحاظ سے درجہ کمال حاصل کرسکتی ہے۔
یہی مولانا عبداللہ سندھی ہیں جنہوں نے آپ زیر درس کے متعلق فرمایا کہ میں ان آیات سے یہ اصول اخذ کرتا ہوں کہ تعلیم جبری ہونی چاہئے تاکہ تعلیم حاصل کر کے ترقی کی منزل طے کی جاسکیں ، یورپی ممالک میں جہاں دنیوی تعلیم جبری ہے۔ وہاں مرد و زن کسی کو تعلیم سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاتا۔ سب کو لازماً تعلیم حاصل کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اقوام دنیوی اعتبار سے ترقی یافتہ ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تعلیم پندرہ بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ دینی تعلیم تو ویسے ہی بالکل کمزور ہے۔ صرف ایک دو فیصد لوگ ہی دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں ، دنیوی طور پر بھی ہمارے پچاس فیصد لوگ گنتی تک نہیں جانتے اردو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے اور نہ ہی حساب سے کچھ واقفیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمان کے زمانے تک مسلمان حصول تعلیم کے اصول پر عمل پیرا تھے ، اور ترقی کی منازل بھی طے کرتے تھے۔ لہٰذا لازم ہے کہ کسی مرد اور عورت کو ضروریات دین کی تعلیم سے بےپہرہ نہیں رہنا چاہئے۔
اس مقام پر کتمان حق کے متعلق یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ دیکھو جس قوم کے پاس بام عروج تک پہنچانے والی تعلیم موجود ہو ، وہ اسے لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی بجائے اسے چھپائے تو ایسا شخص لعنت کا مستحق نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ اس وقت دنیا جہنم کدہ بنی ہوئی ہے۔ جرائم کی بھرمار ہو رہی ہے۔ اور ہم خاموش بیٹھے ہیں حالانکہ ہمارے پاس وہ تعلیم اور وہ پروگرام موجود ہے جس سے جرائم کی بیخ کنی ہو سکتی ہے …… جس سے انسان کی ذہنی ترقی ہو سکتی ہے اور جس سے تہذیب الاخلاق پیدا ہو سکتا ہے مگر ہم اس تعلیم کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے تیار نہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا کہ سخت ضرورت کے باوجود جب اس تعلیم کو عام نہیں کیا جائے گا تو اس کا وبال لعنت کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ اسی لئے مولانا عبید اللہ سندھی نے فرمایا تھا کہ ضروریات دین میں سے سب سے پہلا نمبر تعلیم کا ہے۔ اسے جبری طور پر نافذ کرنا چاہئے۔
(معالم العرفان فی دروس القرآن سورۃ البقرة آیت نمبر 159)
#جماعت_شیخ_الھند
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں