ہفتہ، 4 دسمبر، 2021

مہاجر، الطاف حسين ۽ سنڌ

ھي لکڻي ھڪ مھاجر نوجوان جي آھي، نئين نسل مان قوميت جي بنياد تي رکيل نفرتن جو خاتمو ٿي رھيو آھي جيڪا خوشيءَ جھڙي ڳالھ آھي.
گذريل جمعي تي ھڪ مھاجر دوست سان ملاقات ٿي جيڪو پڻ سنڌي ۽ مھاجر جھيڙي جو مخالف نظر آيو.
ثقافتي ڏھاڙي جي موقعي تي نفرتن کي وساري ھڪ قوم بڻجي پنھنجي حقن لاءِ سنڌ جي حقن لاءِ اٿڻ گھرجي.



" مہاجر الطاف حسین اور سندھ "

عبد اللہ ايوب


8 فروری 2020 کو فیسبک پر نشر ہونے والے قائد تحریک جناب الطاف حسین بھائی کے خطاب کو سننے کے بعد میرے نظریہ میری سوچ میں کافی تبدیلی آئی ہے. 
سندھ میں رہنے والے سندھی بولنے والے ہمارے دشمن نہیں ہے. یہ بات اس ایک سال میں ، میں نے کنفرم کر لی ہے،  میرے قائد کے نظریہ کو جس نظر سے میں نے دیکھا وہ یہی کہتا ہے،  آج میرے اپنے کچھ لوگ قائد تحریک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں یہ کہہ کر کہ اس نے جئے سندھ کا نعرہ کیوں لگایا،  یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بائیس اگست سے پہلے الطاف حُسین کے نام کا غلط استعمال کیا ہے،  مال و دولت بنائی ہے،  کہتے ہیں کہ جی الطاف حسین نے مہاجر نام پر سیاست کرنی تھی تو اب یہ سندھیوں کی حمایت کیوں کررہا ہے ارے بھائی آپ کہتے ہو کہ الطاف ہمارا لیڈر ہے لیکن آپ نے اپنے لیڈر کو پہچانا ہی نہیں آج تک، میں نے جس نظر سے الطاف حسین کو دیکھا ہے تو وہ یہی کہ  الطاف حسین ہر  مظلوم کی آواز ہے پاکستان میں رہنے والا ہر وہ شخص جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے یا ہوررہا ہوگا الطاف حُسین اس کا درد اپنے دل میں رکھتا ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی ذات سے ہو الطاف حسین بخوبی واقف تھے کہ  پاکستان میں ہر ذات  میں مظلوم ہیں بلخصوص مڈل کلاس لوگ ، اور ہر ذات میں ہی ظالم ہیں خواہ وہ سندھی زمیندار جاگیردار وڈیرا ہو یا کراچی کا کوئی بزنس مین ، پنجاب کا چودھری ہو یا بلوچستان کا نواب،  الطاف حسین نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان میں صرف مہاجر ہی مظلوم نہیں ہیں جبھی تو ملک کا مفاد بلائے تر رکھتے ہوئے 1997 میں مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی مومنٹ میں تبدیل کیا،  الطاف حسین کو کریٹیسائز کرنے والے وہی لوگ ہیں جو سڑک چھاپ سے سپر اسٹار بن گئے تو باپ کو ہی بھول گئے،  الطاف حسین کی وہ تقریر حرف بہ حرف درست تھی،  سندھ بھی ہمارا ہی ہے. قیام پاکستان کے لئے اگر لیاقت علی خان کی قربانی ہے تو پیر صبغت اللہ راشدی( سورھیا بادشاہ ) کی بھی لازوال قربانی ہے،  اگر سر سید احمد خان کی محنت ہے تو سائین جی ایم سید کی بھی ناقابل بیان محنت ہے. سندھی بھی پاکستان کے خیر خواہ ہیں اور سندھی بھی مظلوم ہیں، مہاجر شہید عظیم احمد طارق کے ساتھ ظلم ہوا ہے تو سندھی بشیر قریشی کے ساتھ بھی ظلم ہوا ہے،  اگر ریاستی ظالم اداروں کے ہاتھوں مہاجر پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف شہید ہوئے ہیں تو  سندھی مظفر بھٹو بھی اُن ہی ظالموں کے ہاتھوں ظلم کی بھینٹ چڑھیں ہیں،  اگر مہاجر آفتاب احمد ، وقاص بھائی،  فاروق پٹنی،  فہیم کمانڈو بھائی شہید ہوئے ہیں تو سندھی آصف پھنور،  سلمان ودھو،  مقصود قریشی،  نواز کنرانی بھی شہید ہوئے ہیں، اور حال ہی میں ہونے والے ناظم جھوکیو کے ساتھ بھی تو ظلم ہی ہوا ہے، اور ان جیسے بے شمار شہداء کا لہو ہم پر قرض ہے ، اور ہمیں ان شہداء کے لہو کی عظمت کو پامال اب مزید نہیں ہونے دینا ،  سندھی مہاجر میں کوئی جگھڑا نہیں ہے ، ہاں کہیں کہیں اختلاف ضرور ہے اور یہ بھی ان فسادیوں ان نامعلوم کی طرف سے فقط ہمیں تقسیم کرنے کے کی ہی سازش ہے آئیں اب ان اختلافات کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں،  آج یہ عہد کرلیں کہ اب ہم محبتیں بانٹیں گے اور نفرتوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرینگے اور ظالموں ، قاتلوں سے مل کر یکجاں ہوکر مقابلہ کریں گے. 

ایکتا جو ڈیھاڑو مبارک ھجی ❤

جئے الطاف حسین 
جئے مہاجر 
جئے سندھ ❤️
ظلم کے ہوتے ہوئے امن کہاں ممکن یارو 
اسے مٹا کر جگ میں امن بحال کرو
حبیب جالب

جمعرات، 2 دسمبر، 2021

کرسٹل ڈرگس اور بلوچستان کی نئی نسل

جلیلا حیدر
ہیومن رائٹس ورکر 


سن 2019 میں مجھ سے ایک لڑکی نے رابطہ کیا کہ میڈم آپ ہیومن رائٹس پر کام کرتی ہے میرے بہن کو انصاف دیں اسکے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔ میں نے کہا آپ چیمبر آجائے تو اس نے 



کہا کہ نہیں کل عدالت ملتے ہے میں بہن کو بھی لاتی ہوں۔ 
خیر وہ عدالت آگئی، لڑکی خود کوئٹہ ایک ہوٹل میں کام کرتی تھی۔ میں پوچھا کہ کہاں ہے بہن، مجھے لگا کہ بہن شاید بڑی خاتون ہوگی، گھریلو ناچاقی یا تشدد کا مسلہ ہوگا۔سامنے آنے پر 13 سال کی لڑکی تھی۔ میں نے کہا یہ بہن ہے اسکو کیا ہوا ہے؟ تو اس لڑکی نے بتایا کہ اسکی بہن کرسٹل نامی ڈرگ استعمال کرتی ہے اور کوئی گروہ ہے جو ان سے جسم فروشی بھی کرتے ہے۔ مجھے ابھی پتہ چلا ہے۔ میں نے یکدم کہا استغاثہ کرتے ہے۔ خیر کچھ دیر میں ایکدم میری نظر بچی کے گردن پر بہت بڑے چاقو کے کٹ کا نشان پر پڑی تو پوچھا یہ کیا ہوا ہے، تو اس بچی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہاں کٹ لگی ہے۔ اس کے بہن نے بتایا کہ اس نے خود اپنا گردن کاٹنے کی کوشش کی یے جب یہ نشے میں تھی۔ میں تو حیران ہی رہ گئی۔ خیر استغاثہ جس مجسٹریٹ کے سامنے جمع کیا اس نے بتایا کہ میڈم اس کیس میں تو پہلے سے راضی نامہ ہوچکا ہے۔ میں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے تو اس نے بتایا کہ فیملی نے معاف کیا ہے۔ جب ہم کورٹ روم سے نکلے تو بہن جب بات کر رہی تھی اسکے آستین بھی تھوڑا آگے پیچھے ہوا، میں نے دیکھا کہ اسکا یعنی بڑی بہن کے اپنے ہاتھ پر بھی کٹس کے نشان تھے۔ جو بچی تھی اسکی تو اللہ معافی اتنے کٹس کے نشان تھے کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ خیر اس کیس میں پیشرفت نہیں ہوسکی۔ بعد میں ایک وکیل دوست نے بتایا کہ یہ پورا خاندان اس کام میں ملوث ہے اور پیسوں کے لین دین پر انکی لڑائی ہوئی تھی تو ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ کیا تھا۔ 
میں گھر آئی انٹرنٹ سے جدید منشیات پر آرٹیکلز پڑھنا شروع کیا جس میں ایک نشہ کرسٹل کا ہے، جو لوگوں کو ہیلوسینیشن میں مبتلا کرتا ہے۔ یعنی ایک ایسی کیفیت جو کہ ایک خیالی دنیا کا تاثر بناتا ہے، اور مصنوعی خوشی کے تاثرات دیتا ہے ۔ لوگ خود کو کچھ اور سمجھ بیٹھتے ہے، اس میں تشدد وغیرہ بھی ہو تو تکلیف محسوس نہیں کرتے، جب تک کہ وہ ہوش میں نہیں آتے۔

- پس نوشت کہنے کا مقصد یہ کہ بلوچستان کے چھوٹے صوبہ میں بہت سارے بچے اور بچیاں مختلف منشیات کے زد میں ہے، اور منشیات فروش نہ صرف ان کو ڈرگ فراہم کرتے ہے بلکہ ان سے جسم فروشی اور دوسرے غیر قانونی کام بھی کرواتے ہے۔ گزشتہ بیس سالوں میں بلوچستان خاص کر کوئٹہ یکسر نظر انداز ہوا ہے، جہاں پر سماجی فرق، غربت، دہشت گردی اور خوف ،نفسیاتی دباؤ نے لوگوں سے نہ صرف انکی انسانیت چھینی ہے بلکہ ایک تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہیں۔ جب ہم اس عالمی سرمایہ داری نظام کی بات کرتے ہے،اس سے ابھرنے والی استحصالی کاروبار جیسا کہ جسم فروشی ،ڈرگ اور ہتھیار کے منڈیوں کی بات کرتے ہے ، اس سے نجات کے لئے برابری کے بنیاد پر سماج کی بات کرتے ہے جہاں تمام طبقوں کو یکسر مواقع حاصل ہو، اسکی جہدوجہد کرتے ہے تو لوگ ہم سے بدظن ہوتے ہے کہ یہ لوگ ملک دشمن، امیر دشمن اور دین دشمن پالیسوں کے طرف راغب ہے۔ 
آج بھی سوال اپنی جگہ ہے کہ ایک شہر میں اتنے چیک پوسٹس اور سیکورٹی ہے پھر بھی منشیات کا کاروبار اس 
تیزی سے کیسے پھیل رہا ہے؟


بدھ، 10 نومبر، 2021

جنم دن کی مناسبت سے



مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش 11 نومبر 1888 میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کا اصل نام محی الدین احمد تھا مگر ان کے والد مولانا سید محمد خیرالدین بن احمد انہیں فیروز بخت کے نام سے پکارتے تھے۔ ابوالکلام آزاد کی والدہ عالیہ بنت محمد کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ آزاد کے نانا مدینہ کے ایک معتبر عالم تھے جن کا شہرہ دور دور تک تھا۔ اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آزاد مصر کی مشہور درسگاہ جامعہ ازہر چلے گئے جہاں انہوں نے مشرقی علوم کی تکمیل کی۔

عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تو کلکتہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ یہیں سے انہوں نے اپنی صحافتی اور سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ کلکتہ سے ہی 1912 میں ’الہلال‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار نکالا یہ پہلا با تصویر سیاسی اخبار تھا اور اس کی تعداد اشاعت تقریباً 52 ہزار تھی۔ اس اخبار میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے اس لیے انگریز حکومت نے 1914 میں اس اخبار پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد مولانا نے ’البلاغ‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا یہ اخبار بھی آزاد کی انگریز مخالف پالیسی پر گامزن رہا۔

مولانا آزاد کا مقصد جہاں انگریزوں کی مخالفت تھا وہیں قومی ہم آہنگی اور ہندو مسلم اتحاد پر ان کا پورا زور تھا۔ انہوں نے اپنے اخبارات کے ذریعے قومی، وطنی جذبات کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابولکلام آزاد نے ’پیغام‘ اور’لسان الصدق‘جیسے اخبارات و رسائل بھی شائع کیے اور مختلف اخبارات سے بھی ان کی وابستگی رہی جن میں ’وکیل‘ اور ’امرتسر‘ قابل ذکر ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد سیاسی محاذ پر بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے’تحریک عدم تعاون‘ ’ہندوستان چھوڑو‘ اور ’خلافت تحریک‘ میں بھی حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں اور علی برادران کے ساتھ ان کے بہت اچھے مراسم رہے۔ گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے وہ بہت متاثر تھے۔ گاندھی جی کی قیادت پر انہیں پورا اعتماد تھا۔ گاندھی کے افکار و نظریات کی تشہیر کے لیے انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا۔

مولانا آزاد ایک اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے۔ وہ کانگریس پارٹی کے صدر بھی رہے، تحریک آزادی کے دوران انہیں جیل کی مشقتیں بھی سہنی پڑیں۔ اس موقع پر ان کی شریک حیات زلیخا بیگم نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ زلیخا بیگم بھی آزادی کی جنگ میں مولانا آزاد کے شانہ بہ شانہ رہیں۔ اس لیے ان کا شمار بھی آزادی کی جانباز خواتین میں ہوتا ہے۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا آزاد ملک وزیر تعلیم بنائے گئے۔ انہوں نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے بہت اہم کارنامے انجام دیے۔ یونیورسٹی گرانٹ کمیشن اور دیگر تکنیکی، تحقیقی اور ثقافتی ادارے ان ہی کی دین ہے۔
مولانا آزاد صرف ایک سیاست داں نہیں بلکہ ایک صاحب طرز ادیب، بہترین صحافی اور مفسر بھی تھے۔ انہوں نے شاعری بھی کی، انشائیے بھی لکھے، سائنسی مضامین بھی تحریر کیے، علمی و تحقیقی مقالات بھی لکھے۔ قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔ غبار خاطر، تذکرہ، ترجمان القرآن ان کی اہم نصانیف ہیں۔ ’غبار خاطر‘ ان کی وہ کتاب ہے جو قلعہ احمد نگر میں قید کے دوران انہوں نے تحریر کی تھی۔ اس میں وہ سارے خطوط ہیں جو انہوں نے مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی کے نام تحریر کیے تھے۔ اسے مالک رام جیسے محقق نے مرتب کیا ہے اور یہ کتاب ساہتیہ اکادمی سے شائع ہوئی ہے۔ یہ مولانا آزاد کی زندگی کے حالات اور ان کے کوائف جاننے کے لیے بہترین ماخذ ہے۔

مولانا آزاد اپنے عہد کے نہایت جینیس شخص تھے جس کا اعتراف پوری علمی دنیا کو ہے اور اسی ذہانت، لیاقت اور مجموعی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’بھارت رتن‘سے نوازا گیا تھا۔
مولانا آزاد کا انتقال 2 فروری 1958 کو ہوا۔ ان کا مزار اردو بازار جامع مسجد دہلی کے احاطہ میں ہے۔

#HappyBirthdayMaulanaAbulKalamAzad

ہفتہ، 6 نومبر، 2021

سنڌ ۽ ناظم...!!!

سنڌ ۽ ناظم...!!!

ابن الحسن ٻرڙو 



سنڌ کي امن ۽ شانتيءَ جو نگر ان لاءِ چيو ويندو آھي جو ھتي پکي پرندا به سڪون حاصل ڪرڻ لاءِ ڏورانھن علائقن کان ھزارين ميلن جو سفر طئي ڪري پنھنجي وقت کي پرسڪون بڻائڻ ايندا آھن.
ان جي ابتڙ سنڌ ۾ انساني صورتن ۾ رھندڙ بگھڙ صفت ڀوتارن سبب جھالت ۽ غلامي به عروج تي آهي، اھڙي وقت ۾ چند نوجوان جيڪي شعور ۽ جذبي سان ٽمٽار آھن، انھن طرفان کين مزاحمت جو منھن ڏسڻو پوندو آھي، اھي نوجوان انسانن توڙي پکين لاءِ فڪرمند رھندڙ ھوندا آھن، شھيد ناظم جوکيو به انھن مان ھڪ آھي جنھن پکين پرندن جي سلامتي لاءِ علائقي جي فرعون ڀوتار سان مھاڏو اٽڪايو ۽ پنھنجي جان جو نذرانو ڏئي امر بڻجي ويو.
ڏٺو وڃي ته سنڌ حڪومت عرب شڪارين کي پرديسي مسافر پکين جي شڪار لاءِ ريالن عيوض ھر سال اجازت ڏيندي آھي ۽ تر جا ڀوتار سندن ميزبانيءَ لاءِ آتا رھندا آھن، اھي عرب شڪاري رڳو پکين جي شڪار لاءِ سنڌ جو سفر ناھن ڪندا، جڏھن اھي وڏيرن ڪوٽ اندر داخل ٿيندا آھن ته غريب نياڻيون جن کي يرغمال بڻائي انھن اڳيان پيش ڪيو ويندو آهي ۽ سندن وارثن کي ڌمڪيون پڻ ڏنيون وينديون آھن، جنھن جو انڪشاف معروف صحافي حامد مير پڻ ڪري چڪو آھي.
سوال اھو پيدا ٿئي پيو ته ايوانن اندر ويٺل مرده ضمير چونڊيل نمائندن ڪڏھن ان موضوع تي آواز ناھي اٿاريو، ڇا انھن جو ضمير به مري چڪو آھي؟
ان وقت لئہ منتظر آھيان جڏھن سنڌي قوم ۾ شعور جي لھر ڊوڙيندي ۽ ڀوتارن جي ڪوٽن کي ٽوڙي ھڪ عوامي انقلاب جو آغاز ڪيو ويندو ته جيئن ايندڙ وقت ۾ ڪو ٻيو ناظم جوکيو قربان نه ٿئي، جيڪڏھن اڃا به ھٿ تي ھٿ رکي ويھبو ته عرب شڪارين سبب ٻيو قتل ٿيندڙ شخص اسان مان ھوندو.....
خاموشيءَ جي مُهر کي ميساري، اختلافن کي وساري ھڪ آواز بڻجڻو پوندو تڏھن تاريخ موجودہ نسل کي پنھنجي سنھري ورقن ۾ ياد رکندي، ٻي صورت ۾ ھڪ ڪوئلي جي ڪيري وانگر ڪو نشان نه رھندو.

سنڌ سلامت ساٿ سلامت

رت ديس تنهنجي راهه ۾ جي ڦڙو ڦڙو ٿي وهي وڃي
منهنجو نصيب ٺهي وڃي تنهنجو به قرض لهي وڃي


جمعہ، 5 نومبر، 2021

شيخ اياز سنڌي ڪلاسيڪي ۽ جديد شاعريءَ جي تناظر ۾

شيخ اياز سنڌي ڪلاسيڪي ۽ جديد
شاعريءَ جي تناظر ۾!
 
جامي چانڊيو
(حصو پنجون-آخري)



ٽيگور ۽ شيخ اياز جي شاعراڻي نسبت!

رابندرناٿ ٽيگور (1941-1861ع) سنڌي ادب جي نسبت سان مرزا قليچ بيگ جو هم عصر هو پر ادبي لاڙن جي حوالي سان سوچ ۽ فڪر جي نسبت سان هن جو مرزا قليگ بيگ سان ڪو به ادبي سُٻنڌ جُڙندي نظر نه ٿواچي. ڇاڪاڻ ته مرزا قليچ بيگ پنهنجي طبع زاد ادب ۾ روشن خياليءَ جي ناصحانه روايت جو امين هو، جڏهن ته ٽيگور هونئن ته جديد دو رجو شاعر، اديب ۽ آرٽسٽ هو پر هن جي ادب جو حاوي لاڙو تخيلاتي، احساساتي ۽ فطرت پسند رومانيت جو آهي. جيتوڻيڪ هن جي سوچ ۾ سياسي، ثقافتي ۽ سماجي عنصر به هئا پر وري به روحانيت، فطرت پسندي، داخليت ۽ تخيل هن جي ادب ۾ ۽ خاص طور شاعريءَ جا بنيادي عنصر هئا. هن جي خاندان جو تعلق هندومت سان هو ۽ هن جا ماءُ ۽ پيءُ هندومت جي گهرائيءَ ۾ لٿل هئا، پر ٽيگور پنهنجي مذهبي ويچارن کي اُپنشندن ۽ ويدن سان سلهاڙڻ باوجود مذهب بابت پنهنجي مضمونن جي سهڙيل ڪتاب ۾ پنهنجي مذهب کي “شاعراڻي مذهب” سان تعبير ڪيو هو ۽ هن جو خدا جو تصور مذهبن جي ٻڌايل تاويلن بجاءِ هن جي فطرت جي گِهري مشاهدي، محسوسات ۽ روحاني تخيل مان اُسريو هو. اِهو اُهو ساڳيو فطرت ۽ ڪائنات جي مختلف مظهرن جي ‘ڪثرت ۾ وحدت’ ڳوليندڙ وحدت الوجودي تصور هو، جيڪو يوناني فلسفي پارمينائيڊس (445-515- ق.م) کان وٺي ڊچ فلسفي اسپينوزا (1677-1632ع) تائين ۽ ويهين صديءَ جي عظيم سائنسدان آئن اسٽائن کان وٺي سندس هم عصر ٽيگور تائين ٿوري ٿوري فرق سان پر ساڳئي جوهر ۽ تصور جي روپ ۾ ملي ٿو ۽ اهڙيءَ طرح شيخ اياز جي آخري ڏهاڪي جي فڪري تبديلين کي ٽيگور جي فڪر ۽ ادب جي نسبت سان پڻ جوڙي ۽ ڏسي سگهجي ٿو.
ڊاڪٽر فياض لطيف جي هن ڪتاب جو آخري مضمون “شيخ اياز جي شاعريءَ تي رابندرناٿ ٽيگور جا اثر” پڻ ان حوالي سان هڪ اهم مقالو آهي ۽ ساڳي وقت هن ڪتاب جو هڪ طويل مضمون پڻ آهي. هن ڪتاب جي خوبي اها آهي جو ان ۾ شيخ اياز جو ايترن گهڻن شاعرن جي نسبت سان اڀياس پيش ڪيو ويو آهي. سنڌي ادب ۾ ٽيگور جو نالو اوپرو ناهي، ورهاڱي کان اڳ ئي هن جا ڪيترا ئي ترجما سنڌي ٻوليءَ ۾ شايع ٿيا. هن چاليهن جي ڏهاڪي جي وچ ڌاري حيدرآباد جو دورو به ڪيو هو ۽ سنڌ جو ڪميونسٽ ڏاهو ڪامريڊ سوڀوگيانچنداڻي سندس يونيورسٽيءَ ۾ شانتي نڪيتن ۾ پڙهيو هو. شيخ اياز به پنهنجن نثري ڪتابن ۽ شاعريءَ ۾ ٽيگور جو گهڻو ذڪر ڪيو آهي، جنهن مان صاف نظر اچي ٿو ته شيخ اياز کي ٽيگور پڻ گهڻو اُتساهيندو هو، ممڪن آهي ته هن زندگيءَ جي پڇاڙڪن ڏينهن ۾ دعائون پڻ ٽيگور جي گيتانجليءَ کان متاثر ٿي لکيون هجن جيڪي ٽيگور 1907ع جي وچ ڌاري لکيون هيون ۽ اهي انگريزيءَ جي وڏي شاعر ييٽس (Yeats) انگريزيءَ ۾ ترجمو ڪيون هيون ۽ لنڊن مان 1912ع ۾ شايع ٿيون هيون. ٽيگور جو اهو ئي ننڍو ڪتاب هيو جنهن تي کيس 1913ع ۾ ادب جو نوبيل انعام مليو هو، جنهن جي شيخ اياز کي هميشه حسرت ۽ خواهش به رهي ۽ ان ۾ ڪو به شڪ ناهي ته هو انجو حقدار به هو. پنهنجي ڪتاب “هرڻ اکي ڪيڏانهن” ۾ هن لکيو هو ته:
“مان اگر سئيڊن ۾ ڄمان ها ته مون کي نوبل پرائز اڄ کان گهڻو اڳي ملي وڃي ها! پر مان ته سنڌ جو آهيان، جنهن جو دنيا جي نقشي تي ڪوئي نشان نه آهي. مان پنهنجي مجبوري ۽ محدوديت کي پنهنجو پاڻ پرچائڻ لاءِ چوان ٿو ته: “مان ته نوبل پرائز جي لائق آهيان. نوبل پرائز منهنجي لائق نه آهي.”


اهڙي حسرت جو اظهار هن پنهنجي ڪتاب “قبر ڏيئا جهڪن” ۾ به ڪيو هو ۽ لکيو هو ته: “اي موهن ڪلپنا تون ته “سپون” رسالي وارن کي لکيو آهي ته شيخ اياز کي نوبل پرائز ملڻ گهرجي. ڪهڙي نوبل پرائز ۽ پاڻ ته آهيون وارياسي تي گل، جنهن کي ڪولهي يا ڀيل پنهنجي پنهنجي گڏهڙي تان جنهن وراڻي ڏسندا ويندا، ۽ پوءِ گڏهه کي ٿري هڻي، مڙهي مان تڪڙو هليا ويندا.”

ٽيگور جي ايتري تعريف ڪرڻ باوجود شيخ اياز پنهنجي شاعرانيا نرگسيت وچان پاڻ کي هن کان مٿڀرو رکڻ جي شعوري ڪوشش به ڪري ٿو. مثال طور هن لکيو آهي ته: “ڇا تون ٽيگور کان وڏو ڪوي ڏسڻ چاهين ٿو؟ يا تنهنجين اکين ۾ ايتري همت نه آهي.”

شيخ اياز جو هڪ وڏو ڪمال ۽ انفراديت اها هئي جو هن ڪڏهن به پنهنجي شاعراڻي، ادبي ۽ فنڪاراڻي توڙي فڪري اتساهه کي محدود ۽ جامع نه رکيو. ان سان جيتوڻيڪ هن جا پنهنجا ڪمزور فڪري پاسا به اڀري آيا پر ان طرح هن جي شاعريءَ، فن ۽ فڪر ۾ گوناگونيت ۽ وسعت به آندي. اهو ئي سبب آهي جو هن تي ساڳي وقت اوڀر جي ڪلاسيڪل ادب، ننڍي کنڊ جي قديم ۽ ڪلاسيڪل ادبي روايتن، يورپي شعري روايت، هندي جي وچولي دور جي ڀڳتي تحريڪ جي شعري ادب، قديم ۽ وچولي دو رجي هندي ويدانت، ويهين صديءَ جي ترقي پسند انقلابيت جا گهرا اثر نظر اچن ٿا ۽ آخري دور ۾ مذهب ۽ روحانيت جا اثر پڻ سندس شاعريءَ ۽ ادب تي حاوي نظر اچن ٿا. ان سڄي تناظر ۾ ظاهر آهي ته هو ويهين صديءَ ۾ ٽيگور جهڙي غير معمولي فطرت پسند ۽ صوفياڻي مزاج جي حامل شاعر، اديب ۽ فنڪار کي ڪيئن ٿي نظر انداز ڪري سگهيو؟ هن ٽيگور بابت لکيو آهي ته:
“ٽيگور نه فقط بنگالي زبان جو پر مشرق جو عظيم ترين شاعر آهي. هن جي شاعريءَ ۾ اهو لطف آهي، جو نديءَ جي سطح تي شفق جو پاڇو پيدا ڪندو آهي. هن جي سِٽَ سِٽَ ۾ ڪمند جي ڳني جي رس آهي، جنهن ۾ تازگي به آهي جو شيريني به.”

هن نه رڳو ٽيگور جا منظوم ترجما ڪيا آهن پر هن کي پنهنجي شاعريءَ ۾ پڻ خراج پيش ڪيو آهي. مثال طور سندس اوائلي شعري مجموعي “ڀئنورڀري آڪاس” ۾ هو لکي ٿو ته:
ڪوي اسان پر نام ڪيو سي، چُميا اوهان جا پير،
ڪوي ڏسين ٿو ڪلجڳ آڻي ڪيڏا ٿو انڌير!
*
ڀورنماسي پوري گنگا، ٿڌڙي ٿڌڙي هير،
ٽلي پيو ٽيگور ڪنڌي تي، اچي پيو پڙلاءُ.
*
ڪوي ڏٺا آهن تو کان پوءِ ڪيڏا اسان ڪلور،
سچ کي سوليءَ تي چاڙهيو ويو، ماٺ رهيا منصور!
(1993ع، ص-41)

سمورن سماجي، تاريخي، تهذيبي، ثقافتي، فڪري فرقن باوجود دنيا جي سمورن وڏن شاعرن ۾ هڪڙيون وجداني، تخيلاتي، فطرتي، مشاهداتي، احساساتي ۽ فني هڪ جهڙايون به هونديون آهن ۽ ظاهر آهي ته ان طرح اهي هڪ جهڙايون ٽيگور ۽ شيخ اياز ۾ به آهن جن تي وڏي تحقيق سان جزويات ۾ اهڙا عنصر ڳولي ڳولي انهن تي تفصيل سان لکڻ جي ضرورت آهي. ان کان سواءِ به ڪجهه سبب آهن جن جي ڪري شيخ اياز ٽيگور کي ڪنهن به صورت ۾ نظر انداز نه ٿي ڪري سگهيو. هڪ ته جڏهن شيخ اياز شاعراڻي وَهيءَ چڙهيو يعني چاليهن جي ڏهاڪي ۾ ته ان دور ۾ نوبيل انعام ملڻ شرط ٽيگور رڳو هند ۾ نه پر سڄي اولهه جي دنيا ۾ گهڻو مقبول ٿي چڪو هو ۽ يورپ ۾ ٽيگور جي اهڙي مقبوليت جو هڪ وڏو سبب اهو به هئو، جو يورپ ۾ ٻن مهاڀاري جنگين جي نتيجي ۾ ڪروڙين انسانن جي اجل جي شڪار ٿيڻ سبب يورپي ۽ اولهه جو معاشرو سخت نفسياتي، هيجاني ۽ وجودي بحران جو شڪار ٿي چڪو هو. ان دور ۾ وجودي فڪر جي لهر جي اڀرڻ جو هڪ اهم سبب اهو پڻ هو، ان دور ۾ سرمائيداريءَ جي بدترين اندروني بحران ۽ انهيءَ انساني تباهيءَ سبب اندروني طور کوکلي ٿيل يورپي معاشري ۾ جڏهن ٽيگور جي روحانيت پسند شاعريءَ جا ترجما ٿيا ته ان کي وڏي پذيرائي ملي جو اُهي باهه تي ماڪ مثل هئا. يورپي سماج صنعتي ۽ سرمائيدار دور جي عروج ۽ خاص طور لڳاتار ٻن مهاڀاري جنگين ۾ ڪروڙين انسانن جي قتل عام سبب پاڻ اهڙو روحاني ڪيف پيدا يا تخليق ڪرڻ کان هر طرح کان قاصر هو. شيخ اياز هونئن به عالمي طرح اڀريل يا اڀرندڙ عالمي لاڙن کان جلد ۽ شعوري طور متاثر ٿيندو هو، سو ٽيگور کان هن جو متاثر ٿيڻ به عجب جهڙي ڳالهه نه هئي. ٻيو ته هن جو تعلق شڪارپور سان هو، جيڪو هڪ ڪاروباري شهر هئڻ باوجود هندو اڪثريتي آباديءَ سبب ويدانتي فڪر جو به اهم مرڪز هو، جنهن تي ساميءَ جي حوالي سان اسان اڳ ئي مٿي لکي چڪا آهيون. انڪري شڪارپور جي ادبي ماحول ۾ ٽيگور هڪ اهم ادبي ۽ فڪري موضوع هو. جنهن کان شيخ اياز جهڙي اڀرندڙ وڏي شاعر جو لاتعلق رهڻ ممڪن نه هو. اهو ئي سبب آهي جو هو پاڻ به پنهنجي ڪتاب “ڪتين ڪر موڙيا جڏهن” ۾ لکي ٿو ته 7 آگسٽ 1941ع ۾ شڪار مان ڪاليج مان واپس ايندي جڏهن کيس پروفيسر ڇٻلاڻيءَ ٽيگور جي وفات بابت ٻڌايو هو ته هو سڄي واٽ گهر تائين اوڇنگارون ڏيندو ويو هو. جيتوڻيڪ اهو دور شيخ اياز مٿان ترقي پسند انقلابيت جي غير معمولي اثرن جو دور هو.

شيخ اياز ۽ ٽيگور جي شاعراڻي نسبت کي سمجهڻ لاءِ اسان کي ٻنهي شاعرن جي هڪ جهڙن ۽ تضادن کي گڏوگڏ ڏسڻو پوندو. ٽيگور جي هڪ دلچسپ ڳالهه اها به آهي ته جنهن دور ۾ يعني اڻوهين صديءَ جي پوين ڏهاڪن ۽ ويهين صديءَ جي پهرين چئن ڏهاڪن ۾ جڏهن دنيا ۾ نظرين جي اٿل، سائنسيت جي اُڀار، جديديت جي ترويج، ترقي پسند سماجوادي انقلابيت، متروڪ پراڻ پسنديءَ کان بغاوت جو جديديت وارو روپ، نوان سماجي موضوع پنهنجي عروج تي هئا، ان دور ۾ به ٽيگور پنهنجي رومانيت پسندي ۽ فطرت پسنديءَ واري فڪري ۽ تخيلاتي دڳ کي ئي اهميت ڏني ۽ انهن خارجي محرڪن جو ڪو گهڻو اثر قبول نه ڪيو. نتيجي ۾ ان لاڙي جتي هن جي شاعريءَ ۾ موضوعاتي گونگانيت کي سوڙهو ڪيو، اتي ساڳي وقت هن جي شاعراڻي انفراديت کي نمايان پڻ ڪيو. اهو ئي سبب هو جو هن کي نوبيل انعام مليو. انڪري انهن روين ۽ عنصرن کي هن جي سگهه ۽ ڪمزوريءَ ٻنهيءَ سان تعبير ڪري سگهجي ٿو. پر ٻنهي صورتن ۾ هڪ ڳالهه ضرور آهي ته ٽيگور شروع کان پنهنجي شاعراڻي تفڪر جي واٽ بابت تمام واضح هو. جڏهن ته شيخ اياز پاران گهڻين فڪري روايتن کان متاثر ٿيڻ سبب هن جي شاعريءَ ۾ گوناگونيت جو عنصر ته پنهنجي وسعت ۽ شاعراڻي حسن سان اڀري آيو پر شيخ اياز جو بنيادي فلسفيانه نقطه نظر ڪڏهن به چِٽائيءَ سان اُڀري نه سگهيو، جو اهو دراصل هيو ئي ڪو نه. شيخ اياز جي شاعريءَ ۾ موجود مختلف ۽ متضاد فڪري رجحانن جي بنياد تي ئي هن جي درست پرک ٿي سگهي ٿي.هونئن ڪنهن شاعر لاءِ اهو لازمي به ناهي ته هن وٽ ڪو هڪ ئي فلسفياڻو يا سياسي نقطه نظر هجي پر جديديت جي دور جي اها هڪ حقيقت ۽ گهرج ضرور هئي.

ٽيگور ۽ شيخ اياز ۾ هڪ بنيادي فرق ۽ تضاد اهو به آهي جو ٽيگور ۾ باغيانه ۽ مزاحمتي شعور ۽ عنصر ناهي. سندس افسانوي ادب ۾ ته وري به سماجي عڪس آهن پر سندس شاعريءَ ۾ ويدانتي وحدت ۽ فطرت پسندي وڌيڪ حاوي آهن، جيڪا ظاهر آهي ته گهڻو روحاني ۽ احساساتي توڙي تخيلاتي آهي. انڪري سماجي تلخ حقيقتون سندس موضوع گهٽ بڻجڻ ٿيون. مختصر لفظن ۾ سندس شاعريءَ ۾ خارجيت جي ڀيٽ ۾ دخليت وڌيڪ حاوي آهي. ٻئي طرف شيخ اياز پڻ جيتوڻيڪ تخيل ۽ حسيات سان ڀرپور شاعر آهي پر هن ۾ خارجيت، مزاحمتي ۽ باغيانه شعور سان لبريز آهي. هو انفرادي محسوسات، خوشين، ڏکن، خوابن ۽ حقيقتن کي مظلوم طبقن ۽ قومن جي اجتماعيت سان شعوري طور جوڙيندي نظر اچي ٿو ۽ پوءِ تڏهن ئي جيڪڏهن لطيف سائينءَ پنهنجي بيتن ۽ واين لاءِ چيو هو ته:
“جي ٿو بيت ڀانئيا سي آيتون آهن،
نيو من لائين پِريان سندي پار ڏي”
ايئن اياز وري پنهنجي شاعراڻي مزاج کي سمجهندي چيو هو ته:
شاعري جا روح کي گرمائي نه ٿي،
منزل مقصود کي پائي نه ٿي.”

ٽيگور جي شاعري طلاطم کانسواءِ ڪنهن سانتيڪي نديءَ مثل آهي پر اياز جي شاعريءَ ۾ باهه آهي، گجگوڙ ڪندڙ ڪنهن سمنڊ جو طلاطم آهي ۽ آبشارن جو شور آهي يا طوفانن جا پڙاڏا آهن. اهو فرق رڳو انفرادي ناهي پر داخليت ۽ خارجيت جو به آهي. انجو هڪ ٻيو سبب اهو به آهي جو ٽيگور ڪٿي به قوميت کانسواءِ سياسي نظرين کان متاثر ٿيندي نظر نه ٿو اچي، پر شيخ اياز سماج واديت جديديت، قوميت، وطنيت، وجوديت، نراجيت، جمهوريت ۽ آخر ۾ مذهبيت ۽ روحانيت کان بتدريج گهڻو ۽ مسلسل متاثر ٿيندي نظر اچي ٿو.

ٽيگور ۽ شيخ اياز ۾ هڪ جاءِ تي اچي هڪجهڙائيءَ جا عنصر پڻ نظر اچن ٿا، جڏهن شيخ اياز پيريءَ ۾ مذهبيت ۽ روحانيت ڏانهن مائل ٿيندي نظر اچي ٿو. فرق رڳو اهو آهي جو ٽيگور جيئن ته شروع کان روحانيت ۽ ويدانيتي فڪر ڏانهن مائل نظر اچي ٿو، انڪري موت هن لاءِ خوف جو محرڪ ڪڏهن به ٿي نه سگهيو پر شيخ اياز هڪ ڀرپور سيڪيولر (دنوي) زندگي گذارڻ کانپوءِ مذهبيت ۽ روحانيت ڏانهن مائل ته ٿيو پر حقيقت ۾ موت هن کي آخري ڏهاڪي ۾ هڪ قسم جي وجودي بحران ۾ مبتلا ڪري ڇڏيو هو. هن پنهنجي شعرن ۽ نثري تحريرن ۾ انجي گهڻي ترديد ڪرڻ جي ڪوشش به ڪئي پر اهو نفسياتي وجودي بحران هن جي مجموعي شخصيت، ذهني ۽ نفسياتي لاڙن توڙي لکيل ادب ۽ شاعريءَ مان تمام واضح آهي. شعور کي ته لڪائي سگهجي ٿو پر لاشعور کي لڪائي نه ٿو سگهجي. جيتوڻيڪ هن جي لکيل دعائن ۾ ڪٿي ڪٿي تخيلاتي حسناڪي به آهي پر پوءِ به اهي دعائون ان وجودي بحران جو اظهار ڪندي نظر اچن ٿيون. دعائون لکڻ جو تجربو ٽيگور جي گيتانجليءَ کان متاثر ٿيڻ جو لاشعوري نتيجو به ٿي سگهي ٿو. بهرحال پوءِ به شيخ اياز انهن ۾ پنهنجي شاعراڻي تخيل جو حسين اظهار ڪيو ۽ هو انهن ۾ هاڻي انسان آيا سماج يا ۽ گهڻو فطرت ۽ خدا ڏانهن نمرتا سان همڪلامي ڪندي نظر اچي ٿو.

ڊاڪٽر فياض لطيف جي لکيل هن شاندار ادبي پرک جي ڪتاب ۽ ان تي منهنجي لکيل هن تفصيلي مقدمي/مقالي ۾ شيخ اياز جي شاعريءَ ادبي شخصيت جا انيڪ پاسا بحث هيٺ آيا آهن ۽ پرک جي اها گوناگوئيت سنڌي ادب ۾ تنقيد لاءِ سڀاويڪ آهي. مان هي شاندار ۽ فڪر انگيز ڪتاب لکڻ تي نه رڳو پنهنجي دوست ڊاڪٽر فياض لطيف کي دل سان واڌايون ڏيان ٿو پر هن مان اها اميد به ڪيان ٿو ته جيئن هن ڪتاب ۾ ۽ ان کان اڳ اياز شناسيءَ جي ڪم کي نهايت عالمانه ۽ سنجيده انداز ۾ هٿ ۾ کنيو آهي، اهو سلسلو اڃا نون پاسن سان اڳي هلندو رهندو ۽ دراصل اهو ئي طريقو آهي، جنهن سان اسان پنهنجي هن عظيم شاعر کي نه رڳو دل سان ڀيٽا ڏئي سگهون ٿا پر سنڌ جي موجوده ۽ ايندڙ نسلن سان متعارف پڻ ڪرائي سگهون ٿا.

جمعرات، 4 نومبر، 2021

شيخ اياز سنڌي ڪلاسيڪي ۽ جديد شاعريءَ جي تناظر ۾

شيخ اياز سنڌي ڪلاسيڪي ۽ جديد
شاعريءَ جي تناظر ۾!

جامي چانڊيو
(حصو چوٿون)


شيخ اياز ۽ فيض احمد فيض:

شيخ اياز ۽ فيض احمد فيض ٻئي هم عصر، هڪ ٻئي جا دوست هڪ حد تائين هم خيال۽ ويهين صديءَ جا ننڍي کنڊ جا وڏا شاعر هئا. ڊاڪٽر فياض لطيف جو چوٿون مقالو شيخ اياز جي فيض سان نسبت بابت آهي. سندس هي مقالو به هن ڪتاب ۾ شامل اڳوڻن ٽن مقالن جيان تمام معياري، حقيقت پسند ۽ تحقيقي نوعيت جو آهي. هن مقالي جو موضوع عمومي نه پر خصوصي آهي. يعني ڊاڪٽر فياض لطيف فيض احمد فيض ۽ شيخ اياز جي شاعريءَ تي ترقي پسند فڪر جو تقابلي جائزو ورتو آهي.

ننڍي کنڊ جا هي ٻئي وڏا شاعر منهنجي ادبي شعوري وهيءَ کان منهنجا محبوب شاعر رهيا آهن. شيخ اياز کي ته روبرو ڏسڻ، ٻڌڻ ۽ ساڻس ڪيترائي ڀيرا روبرو ماڻهن سان گڏ ۽ اڪيلائيءَ ۾ ڪچهرين جا موقعا مليا، جيڪا مان پنهنجي خوشبختي ڀانئيان ٿو. فيض احمد فض سان ڪڏهن به ملاقات ٿي نه سگهي، جو هو 21 آگسٽ 1984ع تي جڏهن گذاري ويو هو ته مان ان وقت ڪيڊٽ ڪاليج پيٽاري ۾ ميٽرڪ جو شاگرد هوس پر ادبي مزاج ۽ ذوق سبب فيض کي گهڻو پڙهندو ضرور هوس. هي اُهي ٻه شاعر آهن، جن کي مون زندگيءَ ۾ تمام گهڻو ۽ ورائي ورائي پڙهيو به آهي ۽ هي ٻئي شاعر سدائين منهنجي شعور ۽ اتساهه جا سرچشما پڻ رهيا آهن ۽ مون هنن ٻنهي شاعرن تي گذريل ڪيترن ڏهاڪن کان لکيو به بار بار آهي ۽ مختلف رخن کان اڃا وڌيڪ ڪم جو ارادو پڻ اٿم. انهيءَ ڪري اها خوشفهمي به اٿم ته مان ٻنهي کي گهرائيءَ سان سمجهان ۽ سڃاڻان ٿو.

ڊاڪٽر فياض لطيف جو هيءُ مقالو جيئن ته ٻنهي شاعرن جي ترقي پسند فڪر جي تقابلي جائزي تي ٻڌل آهي، انڪري هن ٻنهي شاعرن جي شاعريءَ ۾ ترقي پسند قدرن، اظهار جي نفاست، نزاڪت ۽ زندگي، انسان دوستي، مظلوم دوستي، ڏاڍ دشمني، انقلابيت، مذهبي تنگ نظريءَ سان مزاحمت، سماج جي ڪُڌين رسمن، سوچن ۽ روين سان بغاوت، اظهار جي آزاديءَ، محڪوم ۽ مسڪين ماڻهن جي تخليقي ترجماني، سماجي انصاف لاءِ قلمي ۽ عملي جدوجهد، رياست سان ٽڪراءُ، جيل جي قربانين، بين الاقواميت، هر قسم جي غلاميءَ کان نفرت، عوام جي انقلابي خوابن جي تعبير، مظلومن جي اتحاد تي زور ڏيڻ ۽ انسان جي وقار ۽ آزاد جياپي جي پرچار سميت انيڪ حوالن تي شاعراڻن حوالن سان تفصيل سان لکيو ۽ تمام سٺو لکيو آهي. ڊاڪٽر فياض لطيف جو سمورو زور ٻنهي وڏن شاعرن ۾ هڪجهڙاين تي آهي يا وڌ ۾ وڌ هن پرک ڪئي آهي ته اها به ٻنهي جي اسلوب، انداز، اظهار، تخيل ۽ تخليقي آرٽ جي حوالي سان آهي. هن يقيني طور ذڪر جي حد تائين تفڪر جي ڳالهه به ڪئي آهي ۽ انجا مثال به ڏنا آهن پر اهي مثال به فرق جا نه پر هڪ جهڙاين جا وڌيڪ آهن. مان سمجهان ٿو ته هن مقالي ۾ تفصيل سان بيان ڪيل ۽ مٿي ذڪر ۾ آيل انيڪ هڪ جهڙاين باوجود فيض احمد فيض ۽ شيخ اياز ۾ ڪجهه عمومي ۽ ڪجهه خصوصي فرق به آهن. جن تي مقالي ۾ گهٽ ڌيان ڏنو ويو آهي. منهنجيءَ نظر ۾ اُهي ٿلهي ليکي هي آهن:


(1) فيض احمد فيض جو ڪلام شيخ اياز جي ڀيٽ ۾ مقدار ۾ گهڻو گهٽ آهي. جنهن جا ٻه سبب ٿي سگهن ٿا. هڪ ته هن لکيو ئي ايترو آهي، جيترو هن جي ڪليات ۾ شامل آهي يا وري هن به غالب ۽ گوئٽي وانگر لکيو گهڻو هجي پر سامهون فقط اهو شعر آندو، جيڪو هن معياري سمجهيو هجي يا هن سماج لاءِ اهم سمجهيو هجي. انڪري نتيجو تمام مثبت آهي جو فيض جي ڪتاب ۾ وِرلي اهڙو ڪو شعر هوندو جيڪو پڙهندڙ کي نه وڻندو يا ڀرتيءَ وارو يا زوريءَ لکيل لڳندو هجي. ٻئي طرف شيخ اياز هڪ وڏو شاعر هئڻ باوجود شعوري طور گهڻي مقدار ۾ شاعري ڪرڻ کي اوليت ڏيندو هو ۽ انجو مختلف تحريرن ۽ موقعن تي خوشيءَ ۽ فخر وچان اظهار به ڪندو هو. انجو نتيجو اهو آهي جو شيخ اياز جا سوين ته ڇا پر هزارين بي مثال شعر هئڻ باوجود ڪيترا شعر اهڙا به آهن جيڪي ڀرتيءَ جا يا زوريءَ لکيل لڳن ٿا. انڪري شيخ اياز جو هر شعر ماڻهوءَ کي ساڳي طرح موهي يا پڙهندڙ تي فڪري، حِسي ۽ تخيلاتي اثر وجهي، ايئن نه ٿو ٿئي، اهو ٻنهي جو شاعريءَ ڏانهن رويي ۾هڪ عمومي فرق آهي.

(2) ٻنهي وڏن شاعرن ۾ هڪ ٻيو عمومي فرق هي آهي ته فيض جو شاعراڻو مزاج نهٺو آهي ۽ هو ڪٿي به پنهنجي شاعريءَ بابت ڪا شعوري دعويٰ ڪندي نظر نه ٿو اچي. ٻئي طرف شيخ اياز جو مزاج انهيءَ جي ابتڙ هو ۽ اياز پنهنجي شاعريءَ جي مڃتا، مٿڀرائپ ۽ عظمت کي پاڻ پنهنجي نثر ۽ شعرن ۾ شعوري طور اڀارڻ جي مڪمل ۽ هر ممڪن شعوري ڪوشش ڪري ٿو. اهو اياز جو حق هو، جو هو ايترو وڏو شاعر هو ۽ هن اياز شناسيءَ کي پاڻ به پنهنجي حياتيءَ ۾ هڪ ادبي ايجنڊا ۽ شعوري ڪوشش سان اڳتي وڌايو. دنيا ۾ وڏن شاعرن ۾ اهي ٻئي لاڙا موجود رهيا آهن پر اهو شاعراڻي مزاج جو هڪ فرق بهرحال آهي. نشٽي جو شونپهائر کانپوءِ ٻيو، اتساهه جيڪو ڪجهه وقت سندس استاد جي حيثيت به رکندڙ هو. يعني جرمنيءَ جو عظيم موسيقار واگنر اهو به اياز وانگر ئي پنهجو پاڻ تي بيحد فخرمند هوندو هو ۽ ظاهر آهي ته اهو، فخر هو لهندو به هو. انڪري اياز تي به اهڙو لاڙ حاوي رهيو. جڏهن ته فيض ۾ نهٺائي ۽ فقيري وڌيڪ هئي.

(3) فيض احمد فيض بنيادي طور هڪ انقلابي، ترقي پسند ۽ رومانوي شاعر هو. جنهن جي انقلابيت ۽ ترقي پسنديءَ ۾ رومانويت آهي ۽ جنهن جي رومانويت ۾ انقلابيت ۽ ترقي پسندي آهي. پر هڪڙي ڳالهه آهي ته فيض جو شاعراڻو فڪري مزاج شروع کان هڪ جهڙو ۽ اهو ئي رهيو. جڏهن ته شيخ اياز ۾ هڪ طرف گهڻ طرفو فڪري مزاج آهي ته ٻئي طرف هن ۾ هر دور ۾ نون نون فڪري لاڙن کان اُتساهه حاوي نظر اچي ٿو. جنهن کي مون اياز تي هڪ ٻئي مقالي ۾ اياز جو متحرڪ شعور سڏيو هو. اها اياز جي خوبي به آهي جنهن هن جي شاعريءَ ۾ گهڻا فڪري رنگ ڀريا ته اها اياز جي ڪمزوري به آهي ته هو فڪري ۽ نظرياتي طور واضع نظر نه ٿو اچي. هر دور ۾ هن جا فڪري رستا مختلف آهن. فيض پنهنجي اڳوڻن خيالن کي ڪٿي به رد ڪندي نظر نه ٿو اچي، جڏهن ته شيخ اياز پنهنجي فڪري تبديلين سبب پنهنجي ئي اڳوڻين فڪري روايتن يا رجحانن کي ۽ لڳ ڀڳ اڌ صديءَ جي شاعراڻي پنڌ کي فڪري طور برملا رد ڪندي نظر اچي ٿو. خاص طور آخري ڏهاڪي ۾ جڏهن ته اهو رد ڪيل دور سندس شاعريءَ جو وڌيڪ مقبول ۽ حسين دور آهي. فيض احمد فيض ترقي پسنديءَ کي ڪڏهن به رد نه ڪيو، اها ٻي ڳالهه آهي ته هو روس جي زوال کان ست سال اڳ ئي 1984ع ۾ فوت ٿي چڪو هو پر مون کي يقين آهي ته هو زندهه به هجي ها ته به ان فڪر جي نفي نه ڪري ها. ڇاڪاڻ ته اهو فڪر هن ڪنهن دور يا ملڪ جي اتساهه ۾ نه قبوليو هو پر اهو هن جي شعور جو پنڌ ۽ معراج هو. جڏهن ته شيخ اياز آخري دور ۾ واضع لفظن ۾ ترقي پسند فڪر کي رد ڪيو ۽ ان سان پنهنجي اڳوڻي وابستگيءَ تي سخت پڇتاءَ جو اظهار ڪيو.

(4) فيض احمد فيض ۽ شيخ اياز جي ترقي پسنديءَ ۾ هڪ فرق اهو به هو ته فيض جي بين الاقواميت بي پاڙي آهي. ان جو ڪو وطن ناهي ۽ پاڪستان هن جو ڪو تاريخي ۽ تهذيبي وطن نه هو. جنهن سان هن جي جذباتي وجودي وابستگي هجي ها ۽ اهو مسئلو اڪثر اردو جي وڏن ترقي پسند شاعرن جو آهي ۽ پنجاب ۾ پنجاب کي وطن سمجهڻ جي سوچ ۽ روايت ناپيد هئي، جنهن کي هو پنهنجو وطن سمجهي ها. انڪري فيض جي انقلابيت ۽ ترقي پسندي وطنيت ۽ ان جذبي ۽ نامياتي حقيقت کان محروم آهي. جڏهن ته شيخ اياز ان حوالي سان فيض کان وڌيڪ ڀاڳوارو ۽ سگهارو آهي. اياز جي ترقي پسندي بي پاڙي ناهي، ان جون پاڙن سنڌ جي تاريخ ۽ وطنيت ۾ کتل آهن. ان جو ئي نتيجو آهي جو اياز نه رڳو جديد ۽ وڏو ترقي پسند شاعر آهي پر هو سنڌ جي ڪلاسيڪل دور جو به تخليقي تسلسل آهي. جڏهن ته فيض جون خود پنجاب جي صوفياڻي فڪر جي بابا فريد کان وٺي ويندي بلهي شاهه تائين هڪ غير معمولي عظيم شعري روايت سان ڪو گهڻو تعلق ناهي. ان جو سبب ٻولي هئي. ٻولي رڳو ڪو رابطي جو ذريعو يا ڪو لفظن جو وياڪرڻي ڍانچو نه هوندو آهي پر ٻولي صدين کان پنهنجي عوامي، سماجي ۽ ثقافتي پاسن ۽ گڏيل مشغول جي محافظ هوندي آهي. فيض جو جيڪڏهن ڪلاسيڪل دور سان ڪو ناتو جڙيو ته به اهو غزل جي گهاڙيٽي سان هو. جنهن کي هن نئون رنگ ۽ مفهوم ڏنو هو. ان معاملي ۾ اياز فيض کان گهڻو سگهارو نظر اچي ٿو. ان ڳالهه اياز کي نه رڳو موضوعاتي وسعت، تاريخيت ۽ لسانياتي سگهه ڏني پر هڪ اهڙي حسناڪي ۽ خارجي سگهه به ڏني جيڪا هڪ وڏي شاعر کي وطن جي مٽيءَ مان ملندي آهي، انڪري اياز درست چيو هو ته شاعري بنيادي طور مقامي هوندي آهي. ۽ پوءِ بين الاقوامي هوندي آهي. پنجاب جو سماج فيض جي شاعري مان پنهنجو تاريخي ۽ تهذيبي جوهر نٿو ڳولي سگهي. جڏهن ته اياز جي شاعري سنڌ جي تهذيبي، ورثي، ڪلاسيڪل دور ۽ سماجي يا فڪري ارتقا جو آئينو به آهي.

هونئن ته فيض احمد فيض ۽ شيخ اياز ۾ ٻيا به انيڪ جزوي فرق فڪري، فني، اسلوب ۽ ترڪيبن يا ڪردارن ۽ لاڙن جا ڳولي سگهجن ٿا پر ٿلهي ليکي فرق اهي آهن جيڪي مون مٿي بيان ڪيا آهن. صنفن ۽ گهاڙيٽن جا مثال مون هتي انڪري نه ڏنا آهن، جو اهي مقالي جو موضوع نه آهن، انهن تي جدا لکي سگهجي ٿو پر صنفن ۽ فني ترڪيبن ۾ اياز ۾ وسعت فيض کان گهڻو وڌيڪ آهي. مان هتي شعرن جا مثال انڪري نٿو ڏيان جو هڪ ته ڊاڪٽر فياض لطيف پنهنجي مقالي ۾ اهي گهڻي ڀاڱي ڏئي چڪو آهي ۽ ٻيو ته مان فيض ۽ اياز صاحب تي لکيل پنهنجن تفصيلي مقالن ۾ اهي اڳ ئي ڏئي چڪو آهيان. هتي وري ڏيڻ هڪ ورجاءُ ٿيندو. ان باوجود اهو چوڻ ۾ ڪو به وڌاءُ نه ٿيندو ته فيض ۽ اياز ويهين صديءَ جي ننڍي کنڊ جي ترقي پسند شاعريءَ جا مهندار آهن ۽ سندن شاعري اهو تخليقي وکر آهي، جيڪو وقت سان پئي پراڻو ۽ متروڪ نه ٿيندو ۽ اهو ئي ٻنهي جي امرتا جو وڏو دليل آهي.

بدھ، 3 نومبر، 2021

شھيد ڊاڪٽر خالد محمود سومرو

ڀلي تجربو ڇو نه هجيس پر جيڪڏهن ميديڪل ڪاليج يا ميڊيڪل يونيورسٽي جي مطلوبه ”ڊگري“ نه اٿس ته اهڙي شخص کي پاڪستان ۾ ”ڪلينڪ“ کولڻ جي قانوني اجازت ناهي هوندي پوءِ اڻپڙهيل ڄٽن ۽ جاهلن کي ممبر رسولﷺ تي ويهڻ جي اجازت به نه هجڻ گهرجي جيئن صحت هڪ اهم شعبو آهي، تيئن ايمان به صحت کان وڌيڪ اهم شعبو آهي...........!!! (شهيد ڊاڪٽر 
(خالد محمود سومرو رحمه ﷲ) 




اڄڪلھ اڪثر خطيبن ۽ يوٽيوبر مولوين ۾ جاهلن جي آهي

حسن عسڪري جي فيس بڪ وال تان ورتل